دینی مدارس اعتدال پسند اور انسانیت نواز ادارے ہیں

 

از:سہیل اختر، متعلّم دارالعلوم دیوبند

 

                مدارس اسلامیہ، مکاتب دینیہ شرعی اداروں کے قیام کے مقاصد، اغراض اور فوائد ارباب عقل ودانش پر مخفی نہیں ہے؛ کن عصری مجبوریوں، قومی ضرورتوں اور ملی تقاضوں کی بنیاد پر مدارس، مکاتب اوراسلامی تعلیم گاہوں کا باضابطہ طور پر قدیم اسلوب سے انحراف کرتے ہوئے انہیں روایتی خطوط پر مزید اضافہ، جدید اسلوب اور مفید ومستحکم عناصر کے ساتھ قیام عمل میں آیا؛ مدارس اسلامیہ کے تاریخی حالات سے آشنا حضرات اس پس منظر اور نکتہٴ تبدیلی سے بخوبی آگاہ ہیں۔ مدارس اسلامیہ کی اولین ترجیح اسلام کا تحفظ، اسلامی اقدار کی صیانت اور شرعی وملی مسائل کا حل ہے اوراس کا نمایاں ہدف ایسے رجال کار کو پیدا کرنا ہے جو امت کی فلاح و بہبود ی کی خواہش لئے ہوئے عصری شروروفتن کے انسداد، تخریبی و طاغوتی قوتوں کی سرکوبی کے لئے مستعد اور ہر نوعیت کی علمی، عملی، شعوری اور حربی سرگرمیوں کو انجام دینے کی طاقت رکھتے ہوں جو ملت اسلامیہ پر منڈلانے والے داخلی و خارجی خطرات کا دفاع کرسکتے ہوں، اسلامی اور قرآنی علوم کی اشاعت اور دینی امور کی تبلیغ کا مخلصانہ جذبہ رکھتے ہوں، امت میں بیداری، جذبہٴ حریت اور اسلامی ذہنیت کو وسعت کے ساتھ پھیلانے کی قوت رکھتے ہوں، اخلاص، للّٰہیت اور یکسوئی کے ساتھ خدمات انجام دینے کی سکت رکھتے ہوں، مسائل سے آشنا، حالات سے باخبر اور مخالف عناصر سے بخوبی آگاہ ہو، دعوتی و دینی راہوں میں ناپسندیدہ عوارض پیش آنے سے چراغ پا ہونے کے بجائے ضبط کا مادہ رکھتے ہوں اور قرآنی احکامات، نبوی ارشادات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اصول حیات پر عمل پیرا ہوں۔

                مدارس عربیہ اور دینی ادارے صدیوں سے ایک مخصوص نظم ونسق کے ساتھ آزادانہ دینی وملی خدمات انجام دے رہے ہیں ان مدارس سے ایسے علماء اور قرآن، احادیث اوراس سے متعلقہ علوم کے ایسے ماہرین پیدا ہورہے ہیں جو ہرمعاملے میں عوام وخواص کی ذاتی وانفرادی نیز اجتماعی زندگی میں راہنمائی کرتے ہیں۔ کل ملاکر مدارس اسلامیہ اور دینی ادارے جن اغراض ومقاصد کے تئیں متحرک وفعال ہیں ان کے بارے میں کسی بھی پہلو سے Rong Fellng نہیں ہوسکتی اور ویسے بھی مدارس اسلامیہ کی صحیح تاریخی اسناد، ملی خدمات اور مدارس کے انسانیت پر احسانات سے آگاہ افراد کا یہی خیال ہے کہ مدارس بے داغ، صاف ستھرے اور انسانیت شناس ادارے ہوتے ہیں، جس سے انسانیت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ ان مدارس ومکاتب کے ذریعہ ہر زمانے میں قومی مقاصد کی تکمیل ہوئی ہے، تہذیب وتمدن کی حفاظت ہوئی ہے اور قومی سرمایوں کی حفاظت ہوئی ہے اور آج بھی ہورہی ہے۔ یہ ایک واشگاف اور حتمی حقیقت ہے۔ نیز جنگ آزادی کے تئیں مدارس کے مخلصانہ خدمات اور جانثارانہ کردار، دینی مدارس ومکاتب کی اہمیت، ضرورت اور افادیت کی تشریح کے لئے کافی ہے پھر بھی اگر کوئی طبقہ مدارس اسلامیہ کے امیج کو دیدہ ودانستہ غلط کردار میں پیش کرتا ہے یا نادانستہ حقائق سے ناواقفیت کی بناء پر مدارس اسلامیہ کو زک دیتا ہے تو اس میں مدارس اسلامیہ کا کیا قصور ہے؟

                موجودہ ہندوستان میں مدارس مخالف جو عام حالات ہیں یا مدارس پالیسی یا طریقہٴ کار کے خلاف جوصدائیں بازگشت کررہی ہیں وہ سب کے سب اسلام دشمنی کے جذبے سے معمور اور مغربی پروپیگنڈوں سے متاثر افراد کا کارنامہ ہے اور سچ یہ ہے کہ مدارس ومکاتب کو جو بعض برادران وطن دہشت گردی کے مراکز سے موسوم کرتے ہیں انہیں آزادی ہند کی صحیح تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

                کیونکہ مدارس اسلامیہ کی کوکھ سے جنم لینے والے حضرت مولانا امام قاسم نانوتوی-رحمہ اللہ-، حضرت شیخ الہند-رحمہ اللہ-، حضرت شیخ الاسلام-رحمہ اللہ-، حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی-رحمہ اللہ-، حضرت مولانا ابوالکلام آزاد-رحمہ اللہ-، حضرت مولانا جعفرتھانیسری-رحمہ اللہ-، حضرت مولانا حسرت موہانی، حضرت مولانا محمد علی جوہر-رحمہ اللہ-، حضرت مولانا شوکت علی-رحمہ اللہ- اور حضرت مولانا مظہرالحق-رحمہ اللہ- نیز وہ متعدد علماء کرام جن کے قائدانہ کردار، سپاہیانہ رول اور رضاکارانہ خدمات سے جنگ آزادی کی تاریخ روشن ہے انہی مدارس کے سپوت تھے۔ جنھوں نے آزادی ہند کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے، جنھوں نے تقسیم وطن کی کھل کر مخالفت کی اورمشترک قومی نظریہ کی تائید کی، ہندومسلم اتحاد کا نعرہ بلند کیا اور مذاہب کی بنیاد پر آپسی اختلاف کی کھل کر مخالفت کی، جنھوں نے ملک کی آزادی کے لئے تن، من، دھن سب کی بازی لگادی، قومی سالمیت کے لئے قربان ہوگئے۔ ہندوستان کو خارجی دخل اندازیوں، شورشوں اور تخریبی عناصر سے پاک کرنے کے لئے سولی پر چڑھ گئے وہ ہزاروں نڈر، بے خوف، جری اور ملک کی محبت لئے ہوئے افراد، علماء اور مجاہدین آزادی انہیں مدارس اسلامیہ اور دینی ادروں کے فرزند تھے۔ مدارس اسلامیہ نے ان کی تربیت کرتے ہوئے جو نقوش چھوڑے تھے وہ فقط انسانیت نوازی، انسانیت دوستی، اعتدال پسندی اور حب الوطنی پر محمول تھے۔ جن مدارس کے اغراض ومقاصد اتنے پاک ہوں؛ جن کے خدمات اتنے بے داغ ہوں اور ملک پرجن کے اتنے احسانات ہوں وہ ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ کیسے بن سکتے ہیں؟ وہ دہشت گردی کے مراکز کیسے قرار دئیے جاسکتے ہیں؟ ان پر انتہا پسندی کے الزامات کیسے لگ سکتے ہیں؟ (عصری ادارے اور جامعات وغیرہ)

                یہ ایک تاریخی و تحقیقاتی تجزیہ ہے مزید مدارس اور غیر مدارس کے ملکی وقومی سطح پر موجودہ خدمات کا موازنہ اور نظروں کے سامنے ہورہے ان کے سپوتوں کی سرگرمیوں کا تجزیہ کیا جائے کہ کس کے اندر انسانیت نوازی، عدم تشدد اور قومی سالمیت کا جذبہ ہے؟ قوانین اور آئین ہند کی پرواہ سب سے زیادہ کس کو ہے؟ مروت، اخوت، قرابت، رواداری اور اعتدال پسندی کس کا شیوہ ہے؟ ذہنی آوارگی، جنسی انارکی اور اخلاقی گراوٹ کس کا وطیرہ ہے؟ ہندوستان کلچروروایت اور تہذیب و تمدن کی حفاظت کس کا طرئہ امتیاز ہے؟ انسانی قدروں کی بے حرمتی، انسانی اعتبار ووقار کو مجروح کرنا اور مشرقی ثقافت کو مجروح کرنا کس کا پیشہ ہے؟ احتجاج، ہنگامہ آرائی، گروہ بندی، اسٹرائک، سرکاری دفاتر اور گاڑیوں کو نذرآتش کرنا یہ کن کی کارستانی ہے؟ تعلیم کے اساسی مقصد اخلاقی اقدار کی حفاظت کا خیال کس کو ہے؟ اور بابائے قوم گاندھی جی کی مثالی زندگی، سادہ زندگی، بلند خیالی، فکری پاکیزگی اور ان کے بتائے ہوئے رہنما خطوط کو مشعل راہ کون مانتا ہے؟ مدارس اسلامیہ کے طلباء کے کارناموں اور نیورسٹیوں، مخلوط تعلیم گاہوں اور کالجوں کے نونہالانوں کی کارستانیوں کا موازنہ کرنے سے حقیقت عیاں ہوجائے گی۔ ان حقائق کو پیش نظر رکھ کر بسہولت یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ قومی مقاصد کی تکمیل، ملکی مفاد کی پرواہ اورانسانیت کا خیال طلبہ مدارس کررہے ہیں نہ کہ کوئی اور...

                الغرض مدارس اسلامیہ کو دہشت گردی کا مرکز اور طلباء مدارس کو شدت پسند، انتہا پسند اور آئی ایس آئی کا ایجنٹ کہنا، یہ الزامات کتنے صحیح ہیں اور کتنے غلط ہیں ایک منصف کیا ایک سیدھا سادہ آدمی یہ فیصلہ کرسکتاہے کہ ملک کی یکجہتی، اتحاد واتفاق، ملکی سالمیت، دستور، قانون، عدلیہ اور سیکولرازم کا احترام جتنا دینی مدارس کرتے ہیں شاید ہی کوئی ادارہ کرتا ہوگا۔ بہرکیف دینی مدارس ومکاتب اعتدال پسند، انسانیت نواز اور اپنے ملک کے وفادار ادارے ہیں

$ $ $

---------------------------------

دارالعلوم ، شماره : 4 ، جلد : 92 ربیع الثانی 1429ھ مطابق اپریل ۲۰۰۸ء